آہِ دل بے اثر نہیں آتی

کیا ہُوا لوٹ کر نہیں آتی

خانۂ دل تمام ہے تاریک

روشنی کیا ادھر نہیں آتی

دل کو آتا ہے جس قدر رونا

کیوں ہنسی اس قدر نہیں آتی

شعلۂ غم بھڑک اٹھے مجھ کو

منّتِ چشمِ تر نہیں آتی

روکشِ بت ہے آئینہ دل کا

صورتِ شیشہ گر نہیں آتی

معصیت ہے ترا وتیرۂ زیست

کچھ حیا اے نظرؔ نہیں آتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]