ادب سے جو بھی مدینے میں سر جھکاتے ہیں

میرا یقیں ہے خدا سے مراد پاتے ہیں

بہشت اُن کے مقدر پہ ناز کرتی ہے

جو خوش نصیب مدینے بلائے جاتے ہیں

امیر ، شاہ و گدا ہر گھڑی زمانے میں

نبی کے خوانِ کرم سے ہی ٹکڑے کھاتے ہیں

بلائے اُن کو جو رو کر مدد کو آتے ہیں

اسیرِ رنج و بلا کے الم مٹاتے ہیں

اندھیرے خود ہی اجالوں میں ڈوب جاتے ہیں

نبی ہمارے جہاں جب بھی مسکراتے ہیں

یقین اُن کے سلامت ہیں نیکیاں واللہ

جو اُن کے روضے کے آداب سیکھ جاتے ہیں

یہ فیض اُن سے ہی نسبت کا ہے رضاؔ دیکھو

مدینے پاک کے ذرّے بھی جگمگاتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]