اساسِ دہر ہے روح و رواں ہے
مری سرکار سا کوئی کہاں ہے
وہی عالم کا والی اور مولا
اسی کا اسم ہی وردِ لساں ہے
وہ اُمّی ہو کے مصدر علم کا ہے
وہ عالم ہے امامِ عالماں ہے
وہی ہر درد کا ہر روگ کا رد
وہی رحم و کرم کا آسماں ہے
وہی روئے حرم کی ہر دمک ہے
حدِ احمد مکاں سے لا مکاں ہے
کھِلا ہے گل کدہ دم سے اسی کے
کہ مہکا اس لئے سارا سماں ہے
وہی طٰس ہے طہٰ وہی ہے
وہی ہادی امامِ مرسلاں ہے
اُسی کا در سہارا سائلوں کا
اُسی در کا گداگر کامراں ہے
وہی مہرِ امم ہمدرد اعلیٰ
وہ سائل کی رسائی ہے اماں ہے
اسی کے واسطے عالم ہوا ہے
اے سائل وہ مرا دارالاماں ہے