اساسِ دہر ہے روح و رواں ہے

مری سرکار سا کوئی کہاں ہے

وہی عالم کا والی اور مولا

اسی کا اسم ہی وردِ لساں ہے

وہ اُمّی ہو کے مصدر علم کا ہے

وہ عالم ہے امامِ عالماں ہے

وہی ہر درد کا ہر روگ کا رد

وہی رحم و کرم کا آسماں ہے

وہی روئے حرم کی ہر دمک ہے

حدِ احمد مکاں سے لا مکاں ہے

کھِلا ہے گل کدہ دم سے اسی کے

کہ مہکا اس لئے سارا سماں ہے

وہی طٰس ہے طہٰ وہی ہے

وہی ہادی امامِ مرسلاں ہے

اُسی کا در سہارا سائلوں کا

اُسی در کا گداگر کامراں ہے

وہی مہرِ امم ہمدرد اعلیٰ

وہ سائل کی رسائی ہے اماں ہے

اسی کے واسطے عالم ہوا ہے

اے سائل وہ مرا دارالاماں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]