افکار پہ پڑتی نہیں ادبار کی چھایا

جب سے ہے تری نعت میں لفظوں کو سجایا

ہر شخص کا ہے اپنا نسَب ، اپنا نصیبہ

میں نے تو ترا نام لیا ، نام کمایا

محتاج ہے اِک چشمِ عنایت کی سرِ حشر

اے شافعِ محشر ! یہ مری فردِ خطایا

خواہش سے فزوں تر ہے یدِ خیرِ معلیٰ

حاجت سے بھی دیتا ہے سوا دستِ عطایا

بخشا ہے مری زیست کو جب اذنِ حضوری

دے موت کو بھی اذن مدینے میں خدایا

جبریل نے عطا کی عرض کہ سرکارِ دو عالَم !

آفاق میں کوئی ترے پائے کا نہ پایا

رکھے گا بھرم خود ہی مری بے ہُنری کا

وہ اسم کہ لب پر ہے سجا ، دل میں بسایا

اُنظر سے دکھایا اُنہیں حالِ دلِ مُضطَر

اِسمَع سے اُنہیں قصۂ غم ہم نے سُنایا

تھا نخلِ عمل بادِ خزاں ریز کی زد پر

آقا نے بچانا تھا ، سو آقا نے بچایا

بُجھ جائے گی صدیوں کی عطَش بار تمازت

جب تشنۂ چشمانِ کرم حوض پہ آیا

بے وجہ نہیں حرف مرے چاند ستارے

مقصودؔ ! مرا خامہ ہے طلعت میں نہایا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]