اللہ اللہ کیا سفر کیا روح پرور خواب تھا

فرشِ ریگِ راہِ طیبہ بسترِ سنجاب تھا

نطقِ جاں شیرینیء مدحت سے لذت یاب تھا

یہ کتابِ زندگی کا اک درخشاں باب تھا

ارضِ طیبہ پر قدم تو کیا ، نظر جمتی نہ تھی

"​ذرہ ذرہ روکشِ خورشیدِ عالم تاب تھا "​

بن گیا اشکِ ندامت میری بخشش کا سبب

بربطِ امید کب سے تشنہء مضراب تھا

صبح کا تارا حضوری کا پیامی بن گیا

رات ہجرِ مصطفےٰ میں دل بہت بیتاب تھا

آنکھ بیتابِ نظارا تھی نہ دل تھا مضطرب

اُن کے در پر ہر کوئی شائستہء آداب تھا

اللہ اللہ روبرو ہے گنبدِ خضرا ایاز

بن گیا عینِ حقیقت جو نظر کا خواب تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]