امکان میں تجلّیِٔ واجب ہے کیا، نہ پوچھ

کثرت میں کیا ہے جلوۂ وحدت نما ، نہ پوچھ

وردِ درود کا ہے مِلا فیض کیا ، نہ پوچھ

کیسی بلا میں پھنس گئی میری بلا ، نہ پوچھ

اوجِ مقامِ سرور ہر دو سرا ، نہ پوچھ

اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا ، نہ پوچھ ”

احساس میں مہکتے ہیں توصیف کے گلاب

خوشبوئے حرفِ نعتِ شہِ انبیا ، نہ پوچھ

مہکی زبان قدس پہ کس طرح بات بات

چمکا لسانِ فیض پہ کیا واعظا ! نہ پوچھ

ہر اک کی دھن ہے خامۂ ناعِت نواز دے

سبقت کا شور لفظوں میں کیسے مچا ، نہ پوچھ

ابرِ عطائے زلفِ نبی کی نہیں ہے حد

کتنا دراز لطف کا ہے سلسلہ ، نہ پوچھ

حرفوں کو ناز بس ہے کہ ہیں سلکِ نعت میں

اوجِ دماغِ واصفِ شاہِ ہدٰی ، نہ پوچھ

رہتا تھا انکسار سے جو بوریا نشین

کس شان سے وہ عرش سے اونچا گیا ، نہ پوچھ

فرقت میں ان کی استن حنانہ رو پڑا

ہوتا ہے ہجرِ یار کا کیا ابتلا ، نہ پوچھ

بخشی گئیں حقیر کو ہر جا پہ عظمتیں

کس طرح نعت نے ہے معظم کیا ، نہ پوچھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]