اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر حسن عسکری عابدی کی برسی ہے۔

حسن عسکری عابدی(پیدائش: 7 جولائی 1929ء – وفات: 6 ستمبر 2005ء)
——
حسن عابدی کا پورا نام سید حسن عسکری عابدی تھا اور وہ 7 جولائی 1929ء کو قصبہ ظفر آباد، ضلع جون پور (بھارت) میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اعظم گڑھ اور الہ آباد میں تعلیم حاصل کی۔ انٹر میڈیٹ شبلی کالج اور بی اے الہ آباد یونیورسٹی سے کیا
1948ء کے اواخر میں حسن عسکری عابدی روزگار کی تلاش میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے جہاں انہوں نے پہلے لاہور اور پھر کراچی میں اقامت اختیار کی۔
لاہور کے قیام کے دوران 1955ء میں انہوں نے روزنامہ آفاق سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا بعدازاں وہ فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے مشہور جریدے ’’ لیل و نہار‘‘ سے وابستہ ہو گئے۔ لیل و نہار کے بند ہونے کے بعد وہ کراچی چلے گئے جہاں انہوں نے روزنامہ مشرق اور اخبار خواتین میں خدمات انجام دیں بعد ازاں انہوں نے روزنامہ ڈان میں ادبی اور ثقافتی کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو ان کی وفات تک جاری رہا، حسن عابدی روزنامہ’’آفاق‘‘، ’’لیل ونہار‘‘، ہفت روزہ ’اخبار خواتین‘ میں کام کیا آخر میں روزنامہ ’’ڈان ‘‘ سے منسلک تھے ،حسن عابدی ایک اچھے مترجم بھی تھے انہوں نے مشہور دانشور ڈاکٹر اقبال احمد کے 62 مضامین کا اردو ترجمہ ’’اقبال احمد کے منتخب مضامین‘‘ کے نام سے کیا تھا اس کے علاوہ ان کی ترجمہ شدہ ایک کتاب ’’بھارت کا بحران‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی تھی ، انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت سی کہانیاں اور نظمیں تحریر کیں۔ وہ کراچی پریس کلب کے صدر بھی رہے وہ ایک کٹر ترقی پسند ادیب تھے اور اپنی اس کمٹمنٹ کی وجہ سے انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑی تھیں
——
یہ بھی پڑھیں : وزیر الحسن عابدی کا یومِ وفات
——
اسی دور میں ان کا کہا ہوا یہ شعر ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا:
——
کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے
——
حسن عابدی کی شاعری کا آغاز دور طالب علمی ہی سے ہو گیا تھا۔ حسن عابدی کی تصانیف میں ’’کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں‘‘،’’ نوشت نے‘‘، ’’جریدہ اور فرار ہونا حروف کا‘‘ شامل ہیں
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’نوشت نے‘، ’جریدہ‘(شعری مجموعے)، ’کاغد کی کشتی‘، ’شریر کہیں کے‘ (بچوں کے لیے نظموں کا مجموعہ)، ’بھارت کا بحران‘(ترجمہ)، ’پاکستانی معاشرہ اور عدم رواداری‘، ’فرار ہونا حروف کا‘ ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کی یادداشتیں ’’جنوں میں جتنی بھی گزری‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی تھیں، حسن عابدی 6 ستمبر 2005ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔
——
منتخب کلام
——
اشکوں میں پرو کے اس کی یادیں
پانی پہ کتاب لکھ رہا ہوں
——
دل کی دہلیز پہ جب شام کا سایہ اترا
افق درد سے سینے میں اجالا اترا
——
اے خدا انسان کی تقسیم در تقسیم دیکھ
پارساؤں دیوتاؤں قاتلوں کے درمیاں
——
دنیا کہاں تھی پاس وراثت کے ضمن میں
اک دین تھا سو اس پہ لٹائے ہوئے تو ہیں
——
کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے اک ترے نہ ہونے سے
ورنہ ایسی باتوں پر کون ہاتھ ملتا ہے
——
سب امیدیں مرے آشوب تمنا تک تھیں
بستیاں ہو گئیں غرقاب تو دریا اترا
——
شہر نا پرساں میں کچھ اپنا پتہ ملتا نہیں
بام و در روشن ہیں لیکن راستہ ملتا نہیں
——
تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے
گل کو بھی ہاتھ لگاؤ تو لہو دیتا ہے
——
یاد یاراں دل میں آئی ہوک بن کر رہ گئی
جیسے اک زخمی پرندہ جس کے پر ٹوٹے ہوئے
——
فصل گل ایسی کہ ارزاں ہو گۓ کاغذ کے پھول
اب کوئی گل پیرہن زریں قبا ملتا نہیں
آشنا چہروں سے رنگ آشنایئ اڑ گیا
ہم زباں اب خشک پتوں کے سوا ملتا نہیں
ایک سناٹا ہے شبنم سے شعاع نور تک
اب کوئی آنچل پس موج صبا ملتا نہیں
حاکموں نے شہر کے اندر فصیلیں کھینچ دیں
دن میں بھی اب کوئی دروازہ کھلا ملتا نہیں
اتنے بے پروا ارادے اتنے بے توفیق غم
ہاتھ اٹھتے ہیں مگر حرف دعا ملتا نہیں
——
رات ہے اور آتی جاتی ساعتیں آنکھوں میں ہیں
جیسے آئینے بساط خواب پر ٹوٹے ہوۓ
آبگینے پتھروں پر سرنگوں ہوتے گۓ
اور ہم بچ کر نکل آۓ مگر ٹوٹے ہوۓ
مل گۓ مٹی میں کیا کیا منتظر آنکھوں کے خواب
کس نے دیکھے ہیں ستارے خاک پر ٹوٹے ہوۓ
وہ جو دل کی مملکت تھی بابری مسجد ہوئی
بستیاں سنسان گھر ویران در ٹوٹے ہوۓ
——
ہم تیرگی میں شمع جلاۓ ہوۓ تو ہیں
ہاتھوں میں سرخ جام اٹھاۓ ہوۓ تو ہیں
اس جان انجمن کے لیے بے قرار دل
آنکھوں میں انتظار سجاۓ ہوۓ تو ہیں
میلاد ہو کہ مجلس غم مبتلا ترے
آنگن میں دل کے فرش بچھاۓ ہوۓ تو ہیں
حزب حرم نے شوق جنوں کو بڑھا دیا
سینے سے ہم بتوں کو لگاۓ ہوۓ تو ہیں
دنیا کہاں تھی پاس وراثت کے ضمن میں
اک دین تھا سو اس پہ لٹاۓ ہوۓ تو ہیں
کب چوب دار پر ہوں سر اراز دیکھیے
اس شوخ کی نگاہ میں آۓ ہوۓ تو ہیں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ