انگور سے پہنچا تھا نہ انجیر سے پہنچا

مُحمّد اظہار الحق اور ثروت حُسین کے لیے(اُنہی کی زمین میں ھدیۂ محبت)

انگور سے پہنچا تھا نہ انجیر سے پہنچا

رس رُوح تلک بوسے کی تاثیر سے پہنچا

پھر مُند گئیں دروازے کو تکتی ھُوئی آنکھیں

پیغام رساں تھوڑی سی تاخیر سے پہنچا

عُجلت میں پڑے لڑکو ! سُنو میری کہانی

مَیں عشق تلک صبر کی تدبیر سے پہنچا

قیدی کے خطوں پر بڑے پہرے تھے، لہٰذا

پیغام مٹائی ھُوئی تحریر سے پہنچا

قبل اس کے کہ جن قتل ھی کردیتا پری کو

شہزادہ کوئی مُلکِ اساطیر سے پہنچا

پھر پنجتَنِ پاک کی تقدیس بتانے

پیغامِ خُدا آیۂ تطہیر سے پہنچا

وہ گھاؤ ھے گہرا کہ جو پہنچا ھے زباں سے

اُس زخم کی نسبت کہ جو شمشیر سے پہنچا

آنکھوں سے تو ٹپکے گا جو دُکھ اندھے گدا کو

اک گالیاں دیتے ھُوئے رھگیر سے پہنچا

ورنہ تو میرے پاس عمَل تھے نہ عَلَم تھا

مَیں مولا تلک نوحۂ دلگیر سے پہنچا

پہنچی مرے دل تک تری آواز کی تاثیر

پھر مَیں ترے در تک اُسی تاثیر سے پہنچا

درکار تھا کُچھ رنگ حُریّت کے عَلَم کو

پھر تازہ لہُو وادئ کشمیر سے پہنچا

ثروت ھو کہ اظہار ھو، تابش ھو کہ جاذب

فارس ! ھمیں سب فیضِ سُخن میر سے پہنچا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]