اَئے ابر زاد ، تیرے بدن پر یہ آبلے؟

ہم تو ترے بقول ، چلو دھوپ سے جلے

آوارگانِ دشتِ محبت کی کچھ کہو

زندانِ بے دِلی میں کوئی بات تو چلے

یوں ہے کہ اب نہیں ہے مداوا وصال بھی

کٹنے کو کٹ گئے ہیں جدائی کے مرحلے

درپے ہوا ہو عشق ، تو پھر معجزہ سمجھ

یہ لے کے میری جان ، اگر جان ہی ٹلے

خورشید ہو چلے تھے جو اپنے گمان میں

آخر کو شام ِ دشتِ ہزیمت میں جا ڈھلے

کوہِ ندا کی راہ پہ پڑتے نہیں قدم

پہلے ہی پوچھتی ہے تھکاوٹ کہاں چلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]