اُمّتی ان کا ہوں جو عرشِ علیٰ تک پہنچے

کیوں عدو کوئی مری رمزِ بقا تک پہنچے

شدتِ عشق میں لے جائے گا طیبہ اس کو

میرا ایک اشک اگر بادِ صبا تک پہنچے

اس کی معراجِ سعادت پہ فدا میرے سفر

نینوا سے جو کوئی غارِ حرا تک پہنچے

کنزِ ایمان سے ہو کر گئے سب مالا مال

وہ حدی خوان جو صحرائے وِلا تک پہنچے

منقسم ہوگا مدینے میں خزانہ اُٹھو

لب کو تاکید کرو حرفِ دعا تک پہنچے

اتنے لبریز ہیں رحمت سے وہاں کے موسم

بے دھڑک جل کے دِیا موجِ ہوا تک پہنچے

سبز گنبد سے کوئی گونج کا فیضان آئے

پھر یہ ممکن ہے مری بات خدا تک پہنچے

کتنا دلکش تھا سماں طیبہ کے بازاروں کا

صبح جو نکلے تھے خیموں میں عشا تک پہنچے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]