اُن کی چشمِ کرم کے طلبگار ہیں

سر بسر اب تو ہم شوقِ دیدار ہیں

یادِ محبوب میں محوِ اذکار ہیں

اُن کے عشاق کیسے طرحدار ہیں

کم نصیبوں کو دنیا نے ٹھکرا دیا

کملی والے مگر سب کے غمخوار ہیں

پا شکستہ چلا ہوں میں اُن کی طرف

یہ مری خوش نصیبی کے آثار ہیں

رحمتِ دو جہاں، رحمتِ دو جہاں

ہم گنہگار ہیں، ہم گنہگار ہیں

کتنے خوش بخت ہیں جن کا کوئی نہیں

کن کا کوئی نہیں، ان کے سرکار ہیں

روز و شب وقف مدحت ہیں قلب و نظر

اب مری خلوتیں خلد آثار ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]