اِک عقیدت کے ساتھ کہتا ہوں

جب بھی میں ان کی نعت کہتا ہوں

تذکرے کو ترے عبادت میں

پیروی کو نجات کہتا ہوں

اُن سے پہلے کا جو زمانہ تھا

میں اُسے کالی رات کہتا ہوں

یہ حقیقت ہے اسمِ احمد کو

میں حلِ مشکلات کہتا ہوں

جو دیارِ نبی میں آئے اُس

موت کو بھی حیات کہتا ہوں

یہ جو ہم تیرے اُمتی ہیں اِسے

تیرا احسانِ ذات کہتا ہوں

تیری چاہت کو میں حبیبِ خدا

حاصلِ کائنات کہتا ہوں

مرتضیٰؔ اپنی نعت گوئی کو

آپ کا التفات کہتا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]