آئے بیمار جو دَر پر تو شِفا دیتے ہیں
سائلوں کو بھی وہ تو گنجِ عطا دیتے ہیں
راہ بھٹکوں کو وہ منزل سے مِلا دیتے ہیں
ڈُوبنے والوں کو ساحل سے لگا دیتے ہیں
فضل فرماتے ہوئے ہِجر مِٹا دیتے ہیں
اپنے دیوانوں کو قُربت کی ہوا دیتے ہیں
ظالموں کو بھی وہ دیتے ہیں کرم کے توشے
دُشمنِ جاں کے لیے کملی بچھا دیتے ہیں
ساقیء حشر ہیں وہ جام عطائوں والے
اپنے تشنہ کو وہ بھر، بھر کے پلا دیتے ہیں
جب کبھی یاد ستاتی ہے رضاؔ آقا کی
ہم تو سرکار کی محفل کو سجا دیتے ہیں