اٹھاؤں کیسے میں بارِ گرانِ سجدۂ شوق

کہاں زمین، کہاں آسمانِ سجدۂ شوق

نبردِ عشقِ بلا کش کہاں ہوئی ہے تمام

ابھی تو دور ہے سر سے امانِ سجدۂ شوق

زمانے بھر کو مسلسل فرازِ نیزہ سے

سنا رہا ہے کوئی داستانِ سجدۂ شوق

حقیقت اس کی مری حسرتِ نیاز سے پوچھ

زمانے بھر کو ہے جس پر گمانِ سجدۂ شوق

وہ سنگِ در تو کجا، اُس کی رہگزر دیکھو

قدم قدم پہ سجے ہیں نشانِ سجدۂ شوق

مزا تو تب ہے کہ کھو جائیں آستان و جبیں

بس ایک تو رہے باقی میانِ سجدۂ شوق

وہ روحِ بندگی جس کی تلاش میں ہے جبیں

ہے ماورائے زمین و زمان سجدۂ شوق

خدائے منبر و محراب! یہ دعا ہے مری

کہ لامکاں میں عطا ہو مکانِ سجدۂ شوق

ظہیرؔ کیجے وضو آبِ انفعال سے آپ

ہوئی ہے خلوتِ جاں میں اذانِ سجدۂ شوق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]