اپنی تمام رونقِ تاباں کے باوجود

میں ماہِ نیم شب ہوا، رُو بہ زوال ہوں

اک عہدِ مہرباں کا تراشہ ہوا ، سو میں

اس عہدِ ناسپاس میں ملنا محال ہوں

افسوس ہے کہ مجھ سا کوئی بھی نہیں ہوا

کم بخت آج تک بھی فقید المثال ہوں

حرفوں سے مطمئن نہیں ہوتی ہیں وحشتیں

میں پوچھتا نہیں ہوں سراپا سوال ہوں

تجرید میری، تیری صراحت سی نا سہی

لیکن کسی کے دستِ ہنر کا کمال ہوں

مشکل سے ہمقدم ہوں سبک رو حیات کے

میں آسماں بدوش ، اگرچہ نڈھال ہوں

میں عالمِ خیال سے دھرتی کا رابطہ

موہوم تو ضرور ہوں لیکن بحال ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]