اپنی متاعِ خواب مرے نام کر گیا

اک شخص شہر ہجر میں گمنام مر گیا

ترکِ جنون کر کے بیاباں سے گھر گیا

بازی نبردِ عشق کی دیوانہ ہر گیا

اِس رقص گرد بادِ غم روزگار میں

ہر جامۂ لحاظ بدن سے اتر گیا

سورج کو سر پہ لاد کے دن بھر چلا تھا میں

اُس کو فصیلِ شام پہ چھوڑا تو گھر گیا

شاخِ گلاب شعلۂ لرزاں لگی مجھے

پروردۂ خزاں تھا بہاروں سے ڈر گیا

اک حرفِ بے شرف کہ کوئی بولتا نہ تھا

بولا گیا تو شہر صداؤں سے بھر گیا

ہر جوہر حیات ہوا صرفِ اندمال

اک زخم بھرتے بھرتے مرا کام کر گیا

قدموں سے راستے گئے رہبر کی آس میں

رہبر ملے تو ہاتھ سے رختِ سفر گیا

جرم وفائے یار کے مجرم بھی ہم ہوئے

الزامِ خود سری بھی ہمارے ہی سر گیا

در پر ترے جھکے تو زمانہ ہوا خلاف

چھوٹا سا ایک کام بڑا نام کر گیا

پھر سے زمین ہے کسی وارث کی منتظر

گرد و غبارِ وقت میں آدم بکھر گیا

ایسے ملے سرابِ مسلسل کہ اب ظہیرؔ

تشنہ لبی تو ہے مگر احساس مر گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]