’’اے خاور حجاز کے رخشندہ آفتاب‘‘
روشن تمہارے نور سے ہے انجمن تمام
جاناں ترے ظہور مقدس کے ساتھ ساتھ
طے ہو گئے مراحل تکمیل فن تمام
کچھ کچھ کبھی کبھی نظر آیا کہیں کہیں
پایا ہے کس نے دہر میں یہ بانکپن تمام
گذرا ہے جس طرف سے ترا کاروان فیض
بکھرا گیا ہے راہ میں مشک ختن تمام
جس زیر کی میں تیرے تعلق کی بو نہیں
وہ زیرکی ہے اصل میں دیوانہ پن تمام
بخشی ہے کنکروں کو اگر لذت سخن
دھویا ہے شاعروں کا غرور سخن تمام
عصر جدید ہی تری چوکھٹ پہ خم نہیں
پر در ہے تجھ سے دامن عہد کہن تمام
رومیؒ ہو شاذلیؒ ہو غزالیؒ کہ کلیریؒ
سیکھے ہیں دلبری کے تجھی سے چلن تمام
ابھرے ہیں تیرے نقش کف پا کو چوم کر
شیریں سخن، بہار پھبن، گلبدن تمام