اے کاش کبھی سارے جھمیلوں سے نمٹ کے

میں روؤں حضور! آپ کے قدموں سے لپٹ کے

اِس عہد نے جو زخم دیئے ہیں مجھے آقا!

میں عرض کروں، تو مرا دل لخت ہو پھٹ کے

صحرائے جنوں میں، میں اکیلا ہی کھڑا ہوں

آتی نہیں خود اپنی بھی آواز پلٹ کے

دیں، سادہ تو دنیا کا ہر انداز ہے رنگیں

اس طرح تو ممکن ہی نہیں کوئی نہ بھٹکے

پھر بھی مرے آقا کی جو سیرت ہو نظر میں

دنیا کا ہر اِک نقش مری آنکھ میں کھٹکے

جب تک مرے کردار میں وہ آب نہ آئے

میں دیکھ نہ پاؤں کبھی دنیا کو پلٹ کے

احسن کبھی اس در کی حضوری ہو میسر

طیبہ میں پہنچ جاؤں میں ماحول سے کٹ کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]