اے کاش! کہ طیبہ کے مکیں ہم بھی کبھی ہوں

سرکار کے روضے کے قریں ہم بھی کبھی ہوں

محفل ہو سجی نعت کی، مسند پہ ہوں آقا

عشاق کے مابین وہیں ہم بھی کبھی ہوں

حسرت ہے یہی آپ کے دربار پہ آ کے

رکھے ہوئے چوکھٹ پہ جبیں ہم بھی کبھی ہوں

عشاق کو طیبہ میں وہ قُربت میں بٹھا کر

جب چہرہ دِکھائیں وہ حسیں ہم بھی کبھی ہوں

اُگتے ہیں گُلِ رحمت و اِکرام جہاں پر

اُس قریہء رحمت پہ کہیں ہم بھی کبھی ہوں

اے کاش! مدینے میں فرشتوں کے برابر

طیبہ میں رضاؔ عرش نشیں ہم بھی کبھی ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]