بات کب رہ گئی مرے بس تک

آگ جب خود ہی آ گئی خس تک

خواب گاہوں کے در مقفل تھے

خواب دیتے ہی رہ گئے دستک

ہجر کی دھوپ کھا گئی تجھ کو

تیرے ہونٹوں کا اُڑ گیا رس تک

زندگی ، آ ، کہیں پہ چھپ جائیں

گن لیا ہو گا موت نے دس تک

دفعتاً ہی اجل نے کھینچ لیا

کر نہ پایا جنوں تجھے مس تک

ایک جگنو ہے میری مُٹھی میں

وہ بھی گر جی سکا اماوس تک

دل ، وہ کم بخت ، جس کے چھوتے ہی

خاک ٹھہرے وفا کے پارس تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]