بغیرِ رحمتِ یزداں نہ ممکن ہے، نہ آساں ہے

ثنا خوانِ محمد ہوں تو میرے رب کا احساں ہے

کوئی سب لکھ دے اس کی حمد کیونکر اس کا امکاں ہے

کہ وہ ہے جس قدر ظاہر، اسی نسبت سے پنہاں ہے

وہ ہے پیغمبرِ آخر، مطاعِ نوعِ انساں ہے

وہ سرکارِ دو عالم ہے، بر آں محبوبِ یزداں ہے

شہنشہ ہیں گدائے در، وہ ایسا شاہِ شاہاں ہے

درِ اقدس پہ اس کے ازدحامِ میر و سلطاں ہے

وہ انسانوں کا ہادی ہے، بذاتِ خود بھی انساں ہے

مقام اونچا ہے لیکن متصل ہی بعدِ یزداں ہے

نظر آنا نہ آنا اس کا مثلِ مہرِ تاباں ہے

جو اک مطلع سے غائب، دوسرے مطلع پہ رخشاں ہے

ضیائے ماہ و انجم ہو نہ ہو کیا کام ہے مجھ کو

بہ یادِ شاہِ خوباں قلب میں میرے چراغاں ہے

شریعت نے کیے حل عقدہ ہائے زندگی سارے

ہمیں اب کچھ نہیں مشکل ہمیں ہر کام آساں ہے

شفاعت چاہیے ان کی، کرم کی اک نظرؔ شاہا

سرِ محشر وہی ہیں اور میرا کون پرساں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]