’’ بول پیا‘‘

ذات کا گنجل کھول پِیا

’’کچھ بول پِیا‘‘

اس رات کی کالی چادر کو

یہ چاند ستارے اوڑھ چکے

کچھ جان سے پیارے یار سجن

دل توڑ چکے، مکھ موڑ چکے

خود آپ بھٹکتی راہوں میں

یہ تن تنہا مت رول پِیا

’’کچھ بول پِیا‘‘

وہ عشوہ و غمزہ دیکھ لیا

اب رات کٹے گی خوابوں میں

میں نام ترے جیون جیون

تم اب تک دور سرابوں میں

جو راکھ ہوئی ان خوابوں میں

یہ ہستی ہے انمول پِیا

’’کچھ بول پِیا‘‘

تو جب تک اپنے پاس رہا

گرداب کا گھیرا راس رہا

پر تول چکا، سب بول چکا

اب من پنچھی بے آس رہا

جذبات نہیں معصیت کے

یوں زہر نہ ان میں گھول پِیا

’’کچھ بول پِیا‘‘

دربار لگا ہے زخموں کا

دردوں کی نمائش جاری ہے

رِستا ہے لہو ان پھولوں سے

خاروں کی ستائش جاری ہے

ہر زخم مہکنے لگ جائے

اک بول تو ایسا بول پِیا

’’کچھ بول پِیا‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]