بے خبری کا موسم ہے

باتیں یاد نہیں رہتیں

تو میری خاموشی کو

کتنا سندر لگتا ہے

تنہائی یہ کہتی ہے

بات کرو دیواروں سے

دروازے کی دستک سے

امیدیں وابسطہ ہیں

وہ بولی یہ بارش کیوں؟

!میں بولا بے چینی ہے

ہجر کے مارے لوگوں کی

رنگت بھی اُڑ جاتی ہے

میری خاموشی اُس کو

کیوں آوازیں دیتی ہے

میں اب کیا بیزاری میں

رونے دھونے لگ جاؤں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تیری دید چھین کے لے گئی ہے بصیرتیں

تجھے ڈھونڈنا تھا ، چراغ ہاتھ سے گر گیا ترے بعد میرا نصیب ساتھ نہ دے سکا ترے ساتھ ڈالی کمند میں نے نجوم پر تو نے اتنی دور بسا لیا ہے نگر کہ اب تجھے دیکھنے کا غرور خاک میں مل گیا مرے حوصلے کا قصور ہے کہ جو بچ گیا مری سانس سانس […]

اُس نے اتنا تو کرلیا ہوتا

بات بڑھنے سے روک لی ہوتی تیری زلفیں نصیب تھیں ورنہ میں کہیں اور الجھ گیا ہوتا تجھ سے بچھڑے تو ہوگئی فرصت وقت نے کتنی جلد بازی کی میں، مرے زخم، میری تنہائی تجھ سے کس نے کہا ادھورا ہوں آئینے سے تمہارے بارے میں بات کرنا عجیب لگتا ہے بات بے بات چپ […]