تاریک دیاروں میں اُجالے کا پتہ ہیں

ہم لوگ محبت ہیں، مروت کی ادا ہیں

مٹِتا ہوا اک نقش ہیں ہم لوحِ جہاں پر

بجھتے ہوئے خاموش ستاروں کی ضیا ہیں

ہم دستِ محبت میں علمدارِ مساوات

ہم دُور سے آتی ہوئی مانوس صدا ہیں

ہم نطقِ محبت میں ہیں الفاظِ پذیرائی

ہم چشمِ اخوت میں عنایت کی نگاہیں

ہر اک کو لگاتے ہیں گلے نام پر اُس کے

سینہ بھی کشادہ ہے تو بازو بہی یہ وا ہیں

خوشبو کی طرح پھیلے ہیں ہم راہ گزر پر

تاریکیِ شب تار میں جگنو کی ضیا ہیں

تاراجِ محبت ہیں اٹھائے ہوئے کشکول

آوارۂ دنیا نہیں الفت کے گدا ہیں

جھُلسے ہوئے منظر میں ہیں سائے کی نشانی

گرتی ہوئی دیوارِ روایت کا پتہ ہیں

ہم کفر سمجھتے ہیں حقارت کی نظر کو

نفرت کی زمینوں میں عنایت کی فضا ہیں

کھُل جائے گا اک بابِ اثر دل میں تمہارے

مانگو تو سہی ہم کو ہمی حرفِ دعا ہیں

بجھتے ہیں گھڑی بھر کو جل اُٹھنے کے لئے پھر

ہم لوگ ہواؤں کے نشیمن میں دیا ہیں

آ جائے نہ تیشے میں کہیں ضربتِ ایمان

اِس خوف میں اب امّتِ آزر کے خدا ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]