تری ثنا سے مرا عصرِ حال تابندہ

تُو میری مدحِ گزشتہ ہے، نعتِ آئندہ

تمھارے ذکر سے ملتی ہے قلب کو تسکیں

تمھارے نام سے رکھتا ہُوں روح کو زندہ

میانِ حشر کھڑے ہوں گے محض عرض بہ لب

تری شفاعتِ کبریٰ کے سارے جوئندہ

کرم سے اپنے اِسے سرفراز فرما دیں

حضور لایا ہُوں شعرِ شکستہ، شرمندہ

بس ایک لمسِ خیالِ کرم کی حاجت ہے

مہک اُٹھے گا مرا نُطقِ خستہ، نالندہ

خدا کا شکر کہ مدحت نے کی نگہداری

بھٹک ہی جانا تھا ورنہ یہ حرفِ شورندہ

وہ لفظ، جن کو ترے نُطق نے اُجال دیا

رہیں گے تا بہ ابد وہ ہی صوتِ پائندہ

جہانِ بُود بھی تھا تیرے نُور کا پرتَو

جہانِ ہست بھی ہے تیرا فیض یابندہ

کریم ! جذب کے کس زاویے سے نعت کہوں

خیال گریہ کناں ہے، سخن ہے لرزندہ

چراغ جلتے ہی مدحت کے طاق میں مقصودؔ

خیال تک مرے احساس کا ہے رخشندہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]