تری ذاتِ حق جلوہ گر سُو بہ سُو ہے

جِدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تُو ہے

مچلتی دلوں میں تری آرزُو ہے

جسے دیکھوں اس کو تری جُستجو ہے

صبا کے لبوں پر تری گفتگو ہے

مہکتی چمن در چمن مُشکبو ہے

تو رازق ہے مخلوقِ خورد و کلاں کا

ترے ہی کرم سے سبھی کی نُمو ہے

سمندر کی لہروں میں تجھ سے روانی

رواں منزلوں کو ہر اک آب جُو ہے

مہ و مہر و اختر یہ سب نور پارے

تری قدرتوں سے ہر اک خوب رُو ہے

ہوائیں بھی گائیں ترے گیت مولا

ترا نام لیتی یہ کوئل کی کُو ہے

زمان و مکاں میں عیاں بھی نہاں بھی

تری داستاں ہی چھڑی کُو بَہ کُو ہے

کلیسا کنیسہ یا دیر و حرم ہو

بشر کی ضرورت تری جُستجو ہے

کوئی بے نیازی سے تیری ہے سرکش

ندامت کے اشکوں سے اک با وضُو ہے

رہے عمر بھر وقفِ تحمید و تمدیح

ظفر کی خدایا یہی آرزُو ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]