دلِ بے تاب ہوا چشم زدن میں پُر تاب

آ گیا لب پہ جو ذکرِ عمر ابن الخطابؓ

پایا فاروقؓ کا اس فرد نے حسنِ القاب

مرحبا وہ شہِ کونین کا ساتھی نایاب

آرزو مند ہوا جس کا نبی بے تاب

تھا قریشی وہ یہی تھا وہ یہی دُرِّ ناب

دلِ تاریکِ عمرؓ نورِ نبی سے ضو تاب

جیسے خورشید کی کرنوں سے ہو روشن مہتاب

آہ وہ وقت کہ ایماں سے نہ تھا بہرہ یاب

واہ وہ دور کیا مزرعِ دیں کو شاداب

اس کو کیا کہئے سمجھ میں نہیں آتے القاب

غوث کہئے کہ ولی کہئے کہ قطب الاقطاب

اس کو اللہ نے بخشی تھی جبینِ شب تاب

ضیغمِ وقت وہ تھا عبدِ حفیظ و اوّاب

سب کو سرشار کیا اور ہوا خود سیراب

از خمستانِ حجازی وہ لنڈھائی مئے ناب

خوبیوں ہی کے سبب رتبۂ عالی پایا

نگہِ قدر سے سب دیکھتے اس کو احباب

شیر بیشہ کہ وہ جب داخلِ اسلام ہوا

اس کی آواز سے گونجے در و منبر محراب

وہ بنا امتِ مسلم کا خلیفہ ثانی

بعد صدیقؓ کہ اول تھا بہ بزمِ اصحاب

زیب تن کرتا تھا ملبوس وہ پیوند لگے

در پہ چاؤش نہ درباں نہ ہی شاہی آداب

اس کو مرغوب رہے دورِ شہنشاہی میں

فقر کے سیکھ رکھے تھے جو نبی سے آداب

زندگی اس شہِ دوراں کی تھی درویشانہ

خوفِ خالق سے رہا کرتی تھیں آنکھیں بے خواب

پاؤں میں اس کے گرے تاج و سریرِ کسریٰ

جانتے سب ہیں یہ تاریخ و سِیر کے ارباب

دشمنِ دیں کے لئے برقِ بلا خیز تھا وہ

خرمنِ کفر کے حق میں وہ مثالِ سیلاب

گریۂ و سجدہ گزاری میں گزاریں راتیں

طالبِ عفو و کرم پیشِ خدائے تواب

جوشِ انفاق رہِ حق میں مثالی اس کا

لا کے قدموں میں نبی کے تھا رکھا نصف اسباب

وہ تھا پابندی آئینِ نبی کا خوگر

دوسروں کو بھی سکھائے تھے یہی سب آداب

ساتھ رہتا تھا محمد کے جو سایہ کی طرح

آج وہ روضۂ انور میں ہے آسودۂ خواب

اس کے چہرہ سے ٹپکتا تھا نظرؔ جاہ و جلال

کانپتے رہتے تھے سب وقت کے رستم سہراب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]