ترے کرم تری رحمت کا کیا حساب کروں

میں حمد کہنے کی کیا فکر کامیاب کروں

چمن میں چاروں طرف پھول تیرے جلووں کے

ہوں کشمکش میں کہ کس گل کا انتخاب کروں

تجھے قریب سے دیکھا ہے دل کے کعبے میں

ترے جمال کا کیا کیا رقم نصاب کروں

میں تیری بندہ نوازی کا معترف ہوں بہت

میں آدمی ہوں، خطا کیوں نہ بے حساب کروں

ترے بغیر ہر اک سوچ ہے گناہ عظیم

میں ذکر غیر سے کیوں عاقبت خراب کروں

خدا کبھی تو گلؔ ، ایسی عطا کرے توفیق

ہر اک بُرائی کا میں خود ہی سد باب کروں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]