دل واقفِ اندازِ روایاتِ کہن ہے

اس بار مگر درد کا کچھ اور چلن ہے

مانا کہ تجھے عشق سے مطلب ہی نہیں ہے

کیا ہو کہ یہی خانماں برباد کا فن ہے

تو حسنِ مکمل ہے تو میں شاعرِ یکتاء

تو وجہِ سخن بن کہ فقط محوِ سخن ہے

تھا لمس ترا نرم بہت ، جھیل گیا ہوں

ویسے تو مجھے بوسہِ خوشبو بھی چبھن ہے

اک عمر ترے خواب کی سلوٹ کو سنوارا

اب یوں ہے کہ حالات کے ماتھے پہ شکن ہے

دل اب بھی لڑے جاتا ہے سنگلاخ زمیں سے

جیسے کہ ابھی ہاتھ میں وہ کانچ بدن ہے

میں ڈھانپ کے بیٹھا ہوں ترا خواب زمیں پر

ویسے مرے اطراف میں گھمسان کا رن ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]