تہہ قوسین سوتے ہیں سر محراب سوتے ہیں

مری بے خواب آنکھوں میں تمہارے خواب سوتے ہیں

تھپکتی تھیں تلاطم خیز موجیں ایک مدت سے

سفینے اب مرے ہمراہ زیر آب سوتے ہیں

کھڑا ہوں سونت کر تلوار اب تک معرکہ گہ میں

میں پہرہ دے رہا ہوں کہ مرے احباب سوتے ہیں

بدن کو چھیدتے کنکر یہیں رہ جائیں گے سارے

ردائے خواب خود ہو جائیگی کمخواب سوتے ہیں

بہت رس پی چکے تھے عمر کا ہم بندگان دل

سو اب شاداب سوتے ہیں بہت سیراب سوتے ہیں

مقابل آسمانوں سے کوئی طوفان ہو تو ہو

سمندر تو مرے پیروں میں اب پایاب سوتے ہیں

تمہارا قرب اب بھی واقعہ ہے جان شب خیزی

مگر اس عمر میں نیندیں بھی ہیں کمیاب سوتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]