تیری دید چھین کے لے گئی ہے بصیرتیں

تجھے ڈھونڈنا تھا ، چراغ ہاتھ سے گر گیا

ترے بعد میرا نصیب ساتھ نہ دے سکا

ترے ساتھ ڈالی کمند میں نے نجوم پر

تو نے اتنی دور بسا لیا ہے نگر کہ اب

تجھے دیکھنے کا غرور خاک میں مل گیا

مرے حوصلے کا قصور ہے کہ جو بچ گیا

مری سانس سانس گواہ ہے کہ میں مر گیا

تجھے اب تلک مری بے بسی پہ گلہ ہے کیوں

مجھے یاد ہے تری کج ادائی کا وقت بھی

تجھے سوچ سوچ کے دن اداسی میں ڈھل گیا

ترے انتظار میں شام حد سے گزر گئی

تو بلند رہتا ہے شوق سے تو میں کیا کروں

مجھے خاک رہنے کا شوق ہے مرا ذوق ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

اُس نے اتنا تو کرلیا ہوتا

بات بڑھنے سے روک لی ہوتی تیری زلفیں نصیب تھیں ورنہ میں کہیں اور الجھ گیا ہوتا تجھ سے بچھڑے تو ہوگئی فرصت وقت نے کتنی جلد بازی کی میں، مرے زخم، میری تنہائی تجھ سے کس نے کہا ادھورا ہوں آئینے سے تمہارے بارے میں بات کرنا عجیب لگتا ہے بات بے بات چپ […]