اک ترے اسمِ گرامی پہ فدا ہوتا ہے

خامۂ عجز تری سمت جھکا ہوتا ہے

روز کرتے ہیں سبھی نت نئے انداز میں حمد

ہاں مگر حقِ ثنا کس سے ادا ہوتا ہے

اس کو رہتی ہی نہیں تاج و سیادت سے غرض

رشکِ شاہان ترے در کا گدا ہوتا ہے

مجھ کو ملتا ہے سکوں نام ترا لینے سے

مضطرب قلب جب اک حد سے سوا ہوتا ہے

جو موحّد بھی ہیں اور عبدِ محمّد بھی ہیں

سایۂ عرشِ فقط ان کو عطا ہوتا ہے

دو جہانوں کی بھلائی اسے ملتی ہے فقط

جس کا مقصود بس اک تیری رضا ہوتا ہے

صیغۂ کُن کی حقیقت ہیں درود اور سلام

کُن سے ماقبل فقط نورِ خُدا ہوتا ہے

ہے ترے عشق کے بندوں کی نشانی مولا!

اُن کا محبوب بھی محبوبِ خدا ہوتا ہے

جھٹ سے چھٹتی ہے خزاں حمدِ الہ کے صدقے

منظرِ حزن ہر اک بار ہرا ہوتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]