جب مرے آقا نے سیدھا راستہ بتلا دیا

کاروانِ زیست پھر کیوں پیچ و خم کی نذر ہے؟

اُمتِ مسلم کی ساری اُلجھنیں کیوں ختم ہوں؟

عزم کا سیماب ہی جب زیر و بم کی نذر ہے

پارسائی کی سند جن جن کو یاں درکار تھی

برملا کہتے تھے جاں اہلِ حَکَم کی نذر ہے

سخت مشکل ہے کہ رشتہ دین سے قائم رہے

روشنی ایمان کی دام و درم کی نذر ہے

جس حرارت سے جلا ملتی مرے اعمال کو

وہ بھی اب افسوس سب کی سب شکم کی نذر ہے

خلد کی چاہت دلوں کی گرد میں گم ہو گئی

روشنی الفت کی شدَّادی اِرَم کی نذر ہے

میرے احساسات میرے شعر پر بھاری پڑے

شعر بھی اندیشۂ ظلم و ستم کی نذر ہے

حاکمِ دوراں بھی رہزن ہے یہاں محکوم بھی

سب کا ایماں ہی سرابِ بیش و کم کی نذر ہے

دولتِ ایماں لٹا بیٹھے ہیں سب بازار میں

سب کی پونجی راحتِ لا و نَعَم کی نذر ہے

عافیت کی راہ دکھلاتا تو ہوں سب کو عزیزؔ

پھر بھی میری فکر اصحابِ ہِمَمْ کی نذر ہے

صرف ہوتی جو توانائی جہادِ عصر میں

وہ توانائی تو سب اہلِ نَغَم کی نذر ہے

(قطعہ بند:۲۹؍نومبر۲۰۱۶ء)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]