جس سے امید جانثاری کی

بات اس نے بھی کاروباری کی

زندگی ناگ تھی کچل ڈالی

ایک ہی چوٹ ایسی کاری کی

یہ لکیریں نہیں ہیں چہرے پر

وقت نے مجھ پہ دستکاری کی

لازمی ہجر تھا نصاب میں سو

جو محبّت تھی اختیاری کی

موت آئی تو یہ کھلا مجھ پر

حد نہیں کوئی بے قراری کی

جس کو سر پر چڑھائے رکھتا تھا

اس نے کب پیٹھ میری بھاری کی

ایک دکھ نے لگا لیا تھا گلے

اک اداسی نے غم گساری کی

اس کے کوچے سے لوٹنا تھا عبث

اس لئے الٹی گنتی جاری کی

درج محرومیوں کے نعرے کیے

دل کی دیوار اشتہاری کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]