جلا کے ایک دیا طاقچے میں چھوڑ آیا

میں اک ہوا کو یونہی وسوسے میں چھوڑ آیا

میں لے کے آ گیا ان آبلوں کو منزل تک

میں راستے کو کہیں راستے میں چھوڑ آیا

تو چاہ کر بھی کبھی خود کو دیکھ سکتا نہیں

میں اتنے عکس ترے آئینے میں چھوڑ آیا

جب اپنے خواب الگ کر لیے کسی نے تو

میں اس کے بعد اسے رتجگے میں چھوڑ آیا

تری کتاب سے خوشبو نہ جائے گی میری

میں اپنے لفظ ترے حاشیے میں چھوڑ آیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]