جن کے اوصافِ حمیدہ کا خزانہ بے قیاس

اُن کی خدمت میں کروں کیا پیش میں حرفِ سپاس

جب زوالِ اُمتِ آقا کا آتا ہے خیال

ڈوبنے لگتا ہے دل ہوتا ہے کچھ اتنا اُداس

اب اِسے قعرِ مذلت میں بھی ملتا ہے سکوں

بے حسی اس درجہ آتی ہے کسی ملت کو راس؟

اب اُسی ملت کے ذہن و دل میں بت ہیں بے شمار

دین کی جس کے، فقط توحید پرہی تھی، اساس

دیکھتا ہوں جب حرم کے پاسبانوں کو عزیزؔ

ٹوٹتی ہے ظلمتِ شب میں سحر ہونے کی آس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]