جو ان کے در پر جھکا ہوا ہے

فلک پہ گویا کھڑا ہوا ہے

جو اٹھ گیا ہے درِ نبی سے

وہ ذلتوں میں گرا ہوا ہے

جڑا ہوا ہے جو ان کے در سے

اسی پہ عقدہ کھلا ہوا ہے

اگر وہ راضی خدا بھی راضی

بڑوں سے ہم نے سنا ہوا ہے

بھنور کی زد میں ہے میری کشتی

فراتِ عصیاں چڑھا ہوا ہے

حضور! دستِ کرم سے تھا میں

وگرنہ غرقاب ہو چلا ہے

غلام، عاجز، خجیل، نادم

درِ نبی پر کھڑا ہوا ہے

ابھی تو مانگا نہیں ہے لیکن

یہ میرا دامن بھرا ہوا ہے

جلیل ناصح بھی تھک چکے ہیں

تو اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]