جو تری چشمِ التفات میں ہے

وہ حصارِ نوازشات میں ہے

میں ہوں محوِ ثنائے شاہِ زمن

فکر باغِ تجلیات میں ہے

اور کچھ سوجھتا نہیں مجھ کو

نعت ہی نعت کائنات میں ہے

میرے سرکار کی پناہ میں آئے

جو گھرا سیلِ حادثات میں ہے

چھڑ گیا تذکرہ تبسم کا

نور بزمِ تصورات میں ہے

شاہِ بطحا کی مہربانی سے

میری کشتی حدِ نجات میں ہے

نام ان کا ہے سازِ دل پہ رواں

ذکر ان کا ہی بات بات میں ہے

باغِ ایماں کی آبرو ٹھہری

حْبِ سرکار واجبات میں ہے

والیٔ دوجہاں کا ہے صدقہ

رنگ جو بزمِ ممکنات میں ہے

المدد اے خدائے شاہِ امم

سنگ دشنام میری گھات میں ہے

ہو بسر ان کی پیروی میں صدف

حسن و خوبی یہی حیات میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]