جو تری یاد سے منور ہیں

دل وہ روحانیت کے پیکر ہیں

بخش اِک قطرہِ ثناء آقا

تیرے اوصاف تو سمندر ہیں

جن پہ سب کچھ لٹایا جاتا ہے

وہی محبوبِ ہر پیمبر ہیں

سب حوالے بہارِ عالم کے

آپ کے حسن کے گداگر ہیں

بخششِ رب کی آپ ہیں میزاں

رحمتِ رب کے آپ محور ہیں

جن کی بھی نوکری قبول ہوئی

لاکھوں ان کی گلی کے چاکر ہیں

تیری ہمت کے آگے ہار گئے

فتنہ و شر کے جتنے لشکر ہیں

صرف دنیا کی مشکلوں میں نہیں

وہ مرے سائبانِ محشر ہیں

سوزِ دل ان کا کوئی کیا جانے

جن پہ پڑھتے درود پتھر ہیں

کتنے خوش بخت ہیں شکیلؔ سبھی

میرے آقا کے جو ثنا گر ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]