جگر بچا ہی نہیں ہے تو کس کو پروا ہے

کہ چاکِ زخمِ جگر کو سیا سیا ، نہ سیا

جو کاٹتے تھے مسافت ، مسافتوں میں کٹے

سفر کا کیا ہے کسی نے کیا کیا ، نہ کیا

فریب عشق ، ترا رقص ہی قیامت ہے

فریب حسن کسی نے دیا دیا ، نہ دیا

ہر ایک تہمتِ وحشت ، ہمی سے وابستہ

ہمارا نام کسی نے لیا لیا ، نہ لیا

بس ایک قطرہِ آبِ بقاء رہی چاہت

اب ایک قطرے کا کیا ہے پیا پیا ، نہ پیا

بلائے غم کو جو سونپا گیا تھا اک شاعر

بلائے غم کی بلا سے جیا جیا ، نہ جیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]