جہانِ چار سُو چمکے، فضائے اندروں مہکے

بہ فیضِ مدحتِ خواجہ، خزاں زادہ فزوں مہکے

تمھاری نعت لکھ لکھ کر تمنا سبز رکھتا ہُوں

تمھارا نام لے لے کر مرا حالِ زبوں مہکے

مدینے سے ملی ہے دل کو کیسی بے کراں نکہت

وہاں سے لَوٹ تو آیا ہے لیکن جُوں کا تُوں مہکے

بدل ڈالا تری آمد نے یکسر منظرِ ہستی

عجب شانِ ترفّع تھی زبوں مہکے، نگوں مہکے

کھِلے ہیں نُطق کی ٹہنی پہ مدحت کے گُلِ خنداں

مرا منظر کسی بھی موسمِ گُل کے بِدوں مہکے

نسب میں رکھتا ہوں میں نسبتِ حسنین کی خوشبو

رگ و پَے میں نہ کیوں اُٹھ اُٹھ کے میری موجِ خُوں مہکے

خزاں آثار ہے فصلِ اجابت اے گلِ یزداں

اِدھر بھی موجۂ نکہت، کہ بختِ واژگوں مہکے

میں ہوں گوشہ نشینِ وادیٔ جلوہ گہِ رحمت

ہزاروں عقل زادوں کا جہاں آ کر جنوں مہکے

ترے ہی نطق سے چہکے ہیں شاخِ ہست کے طائر

ترے انفاس سے ہی اَوّلون و آخروں مہکے

نمودِ جلوئہ مطلق نہیں تُو قیدیٔ امکاں

عوالم تیرے ہونے سے دروں مہکے، بِرُوں مہکے

کبھی مقصودؔ وہ ماہِ شبِ اسریٰ اُتر آئے

مرے دل کے اُداس آنگن کی شامِ بے سکوں مہکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]