حرف کے طُرۂ دستار سے اوسع ، ارفع
نعت ہے فکرِ قلم کار سے اوسع ، ارفع
گو تمنا ہے ، مگر مدحِ شہِ دیں کا محافظ
ہے مرے حیطۂ اظہار سے اوسع ، ارفع
ہے کوئی جاں ترے آثارِ محبت سے ورا ؟
ہے کوئی دل ترے انوار سے اوسع ، ارفع ؟
بخدا وسعت و رفعت میں نہیں ہشت بہشت
کوچۂ احمدِ مختار سے اوسع ، ارفع
کس تمثیل میں بیاں ہو کوئی تمثیلِ کمال
خالقِ دہر کے شہکار سے اوسع ، ارفع
وہ عنایت ہے کہ ما بعدِ کفایت ہے عیاں
لطف ہے حاجتِ نادار سے اوسع ، ارفع
اُس کرم خُو سے ہُوں مقصودؔ طلب گارِ کرم
جس کا احسان ہے ہر بار سے اوسع ، ارفع