حیرت ہے سرِ دار جو مصلوب رہا ہے

اس شخص کا ہر داؤ بہت خوب رہا ہے

آج اس کی خموشی پہ نہ تم انگلی اٹھاؤ

سنتے ہیں کہ وہ صاحبِ اسلوب رہا ہے

اب وقت نے سب نقش بگاڑے ہیں وگرنہ

یہ شہر مرے حُسن سے مرعوب رہا ہے

اے چھوڑے ہوئے شخص مجھے دکھ ہے کہ تجھ سا

کم ظرف مرے نام سے منسوب رہا ہے

ہے اور کوئی کارِ اذیت تو بتاؤ

کیا ہے کہ مرا عشق سے جی اوب رہا ہے

اترا ہے ترے ہجر کا سیلاب رگوں میں

دل آج کراچی کی طرح ڈوب رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]