خبر ہے کیا یہ بشر کو وہ نور جانتے ہیں
ہمارے غَم کی حقیقت حضور جانتے ہیں
وہ لفظِ کُن کی حقیقت، نظامِ موت و حیات
ہوا ہے کیسے جہاں کا ظہور جانتے ہیں
کیوں آرزوئے کلیمی پہ ’’لن ترانی‘‘ تھی
کہ ریزہ، ریزہ ہوا تھا وہ طُور جانتے ہیں
عیاں ہے اُن پہ سبھی اَبرَہَہ کا قصّہ بھی
کہاں سے آئے کیوں آئے طیور، جانتے ہیں
نکال ڈالو اگر بیج سارے کھیتی سے
اُگانا پھر بھی وہ اعلیٰ کھجور جانتے ہیں
زَمن، زَمانوں کی باتیں تمام تر واللہ
حضور جانتے ہیں بس حضور جانتے ہیں
وہ مشکلوں میں بھی مشکل کشائی کرتے ہیں
مدد بھی کرنا جہاں کی وہ نور جانتے ہیں
دَرِ نبی پہ ادب کا خیال رکھنا رضاؔ
جو عِلم رکھتے ہیں وہ تو ضرور جانتے ہیں