خرد کی تیرہ شبی کی اگر سحر ہو جائے

تو روح عشقِ محمد سے معتبر ہو جائے

یقیں کے ساتھ اٹھیں ہاتھ جب دعا کے لیے

قفس کی آہنی دیوار میں بھی در ہو جائے

خجل ہو قوم عمل پر تو مہربان ہو رَبّ

ہر آنکھ فرطِ ندامت سے خوں میں تر ہو جائے

لہک لہک کے جو آقا کا نام لیتے ہیں

اب ان پہ خُلقِ نبی کا بھی کچھ اثر ہو جائے

نبی کا عشق، عمل میں ڈھلے تو بات بنے

پھر امتحان کی مدت بھی مختصر ہو جائے

نفاذِ دیں میں ہو مشکل تو چھوڑ دو مکّہ

اسی اصول پہ، پھر خیر کا سفر ہو جائے!

چلو! رسولِ گرامی سے عرض کرتے ہیں

حضور! لطف کی اس سمت اِک نظر ہو جائے!

یقیں ہے قوم ترحُّم طلب ہو آقا سے

تو بادِ لطف و کرم کا بھی رُخ اِدھر ہو جائے

کبھی یہ قوم بھی حَبل المتین، تھام سکے!

حرم کی سمت ہر اِک فرد کی نظر ہو جائے!

دعا یہ صرف مری ذات تک نہ ہو محدود

ہر ایک آنکھ اِسی سوزِ غم سے تر ہو جائے!

حکایتِ غمِ دل، تُو عزیزؔ کہتا جا

عجب نہیں کہ کوئی حرف، پُر اثر ہو جائے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]