خستہ دل، نالہ بلب، شعلہ بجاں ٹھہرے ہیں

پھر بھی کس شوق سے سب اہلِ جہاں ٹھہرے ہیں

ناتواں دل ہے مگر عزم جواں ٹھہرے ہیں

ان سے پوچھے کوئی آ کر یہ کہاں ٹھہرے ہیں

نیند آ جائے ہمیں بھی نہ عیاذاً باللہ

سب یہ کہتے ہیں کہ وہ سحر بیاں ٹھہرے ہیں

ہم نے واعظ کو نہ پایا کبھی سرگرمِ عمل

دمِ تقریر مگر شعلہ بیاں ٹھہرے ہیں

کچھ سبب کیجیے معلوم کسی سے کہ ہمیں

کیوں یہ آفت زدۂ دورِ خزاں ٹھہرے ہیں

ہم تو ہیں سایۂ دیوارِ حرم میں لیکن

شیخ جی اپنی کہیں آپ کہاں ٹھہرے ہیں

ایسی باتیں ہیں کہ آشفتہ سری بڑھ جائے

اے نظرؔ اہلِ جنوں دشمنِ جاں ٹھہرے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]