خواب ترے جو دل کی پگڈنڈی سے ہٹ جاتے

شاید پلکوں پر اُمڈے یہ بادل چھٹ جاتے

میں کچّا رستہ وہ پکّی سڑکوں کا عادی

مجھ پر چلتا کیسے پاؤں دھول سے اَٹ جاتے

تم نے سوچا ہی کب اپنی انا سے آگے کچھ

ورنہ بیچ کے فاصلے گھٹتے گھٹتے گھٹ جاتے

صبح سویرے تیرے رستے میں جا بیٹھتے ہم

شام سمے تیرے پیچھے پیچھے پنگھٹ جاتے

آج احساس ہوا ہے اُس کی زندہ ضمیری کا

ورنہ اِک مفلس لڑکی کے کپڑے پھٹ جاتے

وہ ضدی تھا اپنی ضد پر اڑ جاتا اشعرؔ

اور ہم سچّے تھے اپنے موقف پر ڈٹ جاتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]