خُدا کا خانہ کعبہ دِل کُشا ہے

حبیب اللہ کا دِل کش حرم ہے

جھُکا ہے سر نبی کے آستاں پر

ہیں لکھتے نعت آنسو، سر قلم ہے

تُو دربانِ حبیبِ کبریا ہے

ظفرؔ! تیرا یہ کیا اعزاز کم ہے

خُدا کی ذات وہ سِرِّ نہاں ہے

جو موجُودات میں واضح عیاں ہے

وہی ہے خالقِ کون و مکاں جو

مسیحائے ہمہ مُردہ دِلاں ہے

وہی ہے مالکِ کُل، خالقِ کُل

وہ مخلوقات کا روزی رساں ہے

گزرگاہِ خُدا ہے چشمِ گِریاں

یا پھر عُشاق کا قلبِ تپاں ہے

نبی اللہ، کلام اللہ سُنائے

حبیب اللہ، خُدا کا ترجماں ہے

یہی خُلدِ بریں، باغِ جناں ہے

ترے محبوب کا جو آستاں ہے

ظفرؔ کی لاج رکھ لینا خُدایا!

مسافر جانبِ طیبہ رواں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]