دشت جنوں کی خاک کہاں تک اڑاؤں میں

جی چاہتا ہے اپنی طرف لوٹ جاؤں میں

ہر اک سے پوچھتا ہوں غمِ ہجر کا علاج

ہر کوئی کہہ رہا ہے تجھے بھول جاؤں میں

میں خوب جانتا ہوں نئے چارہ گر کی چال

وہ مجھ سے کہہ رہا ہے تجھے بھول جاؤں میں

دیکھوں تو ہمسفر ہے ترا کون میرے بعد

اپنے ان حوصلوں کو زرا آزماؤں میں

اس نے کیا تھا عہد مرا ساتھ دینے کا

خود کو یقین خواب کا کیسے دلاؤں میں

سنتے ہیں اس نگر میں بھی اب کے خزاں ہے تیز

شاید کہ اس بہار اسے یاد آؤں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]