دونوں جہاں کو روشن کرتا ہے نور تیرا

اعیان ہیں مظاہر، ظاہر ظہور تیرا

یاں افتقار کا تو امکاں سبب ہوا ہے

ہم ہوں نہ ہوں ولے ہے ہونا ضرور تیرا

باہر نہ ہوسکی تو قیدِ خودی سے اپنی

اے عقل بے حقیقت دیکھا شعور تیرا

ہے جلوہ گاہ تیرا کیا غیب کیا شہادت

یاں بھی شہود تیرا، واں بھی حضور تیرا

جھکتا نہیں ہمارا دل تو کسی طرف یاں

جی میں بھرا ہوا ہے از بس غرور تیرا

اے درد منبسط ہے ہر سو کمال اُس کا

نقصان گر تو دیکھے تو ہے قصور تیرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]