دونوں جہاں کو روشن کرتا ہے نور تیرا
اعیان ہیں مظاہر، ظاہر ظہور تیرا
یاں افتقار کا تو امکاں سبب ہوا ہے
ہم ہوں نہ ہوں ولے ہے ہونا ضرور تیرا
باہر نہ ہوسکی تو قیدِ خودی سے اپنی
اے عقل بے حقیقت دیکھا شعور تیرا
ہے جلوہ گاہ تیرا کیا غیب کیا شہادت
یاں بھی شہود تیرا، واں بھی حضور تیرا
جھکتا نہیں ہمارا دل تو کسی طرف یاں
جی میں بھرا ہوا ہے از بس غرور تیرا
اے درد منبسط ہے ہر سو کمال اُس کا
نقصان گر تو دیکھے تو ہے قصور تیرا